نرم، شفیق اور حلیم ہستی ماں
رب کائنات کا ابن آدم کیلئے انمول تحفہ ماں خالق کائنات کی خوبصورت ترین تخلیق اور ابن ِ آدم علیہ السلام کے لیے رب کائنات کا سب سے انمول تحفہ ہے۔ماں کا لفظ ادا کرتے ہی منہ میں شرینی سی گھل جاتی ہے اور دماغ میں ایک نرم، شفیق اور حلیم ہستی کا تصور ابھرتا ہے
ماں خالق کائنات کی خوبصورت ترین تخلیق اور ابن ِ آدم علیہ السلام کے لیے رب کائنات کا سب سے انمول تحفہ ہے۔ ماں کا لفظ ادا کرتے ہی منہ میں شرینی سی گھل جاتی ہے اور دماغ میں ایک نرم، شفیق اور حلیم ہستی کا تصور ابھرتا ہے۔ ماں کی محبت ، بے پناہ شفقت و ہمدردی اور جان نثاری کی بدولت بچہ زندگی کے کٹھن سفر کا آغاز نہایت آرام و سکون کے ساتھ کرتا ہے۔ مغربی مفکرین بھی ماں کی حرمت اور عظمت کا اعتراف ہر دور میں کرتے رہے ہیں لیکن موجود ہ مغربی معاشرے میں ان مقدس رشتوں کو دنوں میں قید کرنے کی روایت جس طرح جڑ پکڑ رہی ہے اسکی مثال ہر سال منایا جانے والا ”مدرز ڈے“ ہے اور صد افسوس کہ آج مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید میں یہ روایت ہم نے بھی اپنا لی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ماں جیسی عظیم ہستی کی محبت اور اس کی ممتا کی قربانیوں کا صلہ بس اتنا ہی ہے کہ سال کا ایک دن اس انمول ہستی کے نام کر دیا جائے۔ کیا ماں کی محبت سال کے 365 دنوں میں صرف ایک دن کی محتاج ہے ؟ آج مغرب کی نقالی میں ہم مدرز ڈے منانے چلے ہیں، آئیے ذرا دیکھیں کہ ہمارا مذہب اسلام ہمیں ماں کے تقدس اور عظمت کے بارے میں کیا درس دیتا ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے ”بے شک اے لوگو! بہشت تمہاری ماوٴں کے قدموں تلے ہے“۔
مندرجہ بالا حدیث نبوی ﷺ میں ماں کے قدموں تلے جنت رکھ کر اس عظیم ہستی کے مقام و مرتبے کا تعین کر دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی تمام مسلمانوں کے لیے لازم ہے۔ آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تمہاری ماں عبادت گزار ہے ،نماز، روزہ، زکوٰة کی پابند ہے یا اس نے حج کیا ہے تو تب ہی اس کے پاوٴں تلے جنت ہے
بلکہ آپ نے بلا تخصیص ارشاد فرمایا ہے کہ ”جنت تمہاری ماوٴں کے قدموں تلے ہے“۔
کسی کی ماں خواہ عبادت گزار نہ بھی ہو تو بھی اسکی جنت ماں کے قدموں میں ہی ہے۔ والدین کی عزت ، خدت، و اطاعت اور تابع فرمانی کے سلسلے میں تمام شریعتوں میں واضح احکامات موجود ہیں اور ماں باپ کا درجہ اللہ تعالیٰ کے بعد انسانی رشتوں میں سب سے بڑا بتایا گیا ہے ، اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کے بعد ان کی اطاعت کی بھی واضح تاکید موجود ہے ۔ حضرت موسیٰ سے منسوب ایک واقعہ مان کی دعا اور خدمت کا احساس دلاتا ہے۔
ایک مرتبہ کوہ طور پر آپ نے خدا تعالیٰ سے دریافت فرمایا کہ ”اے رب ذوالجلال مجھے بتا کہ جنت میں میرا ساتھی کون ہو گا؟ حق تعالیٰ کی طرف سے صدا آئی”فلاں علاقہ میں ایک قصاب ہے وہی جنت میں تیرا ساتھی ہوگا“۔ یہ سن کرحضرت موسیٰ کے دل میں اسے دیکھنے کی خواہش ہوئی چنانچہ آپ سفر کر کے منزل مقصود پر پہنچ گے اور قصاب کو اپنی دکان بر بیٹھا پایا۔ آپ نے اس سے کہا میں آج تیرا مہمان ہوں اس نے کہا بیٹھ جائیں۔ آپ اس کے قریب بیٹھ گئے اور اس کی حرکات و سکنات کا بغور مطالعہ کرنے لگے تا کہ ی جان سکیں کہ اس کا وہ کون سا پسندیدہ اور مقبول عمل ہے جس نے اسے اتنی بلندیوں پر پہنچایا ہے۔ شام کے وقت وہ آپ کو اپنے گھر لے گیا، آپ نے دیکھا کہ قصاب کی والدہ نابینا ہیں، ہاتھ پاوٴں کام نہیں کرتے سارے دانت ٹوٹ چکے ہیں۔ الغرض وہ سراپا ضعف، ناتوانی اور کمزوری کی حالت میں تھیں۔ سب سے پہلے قصاب نے اپنی والدہ کا ہاتھ منہ دھلایا، بال سنوارے اور پھر نہایت ہی نرم گوشت پکایا اور اسے اپنے ہاتھوں سے مل مل کر خود اپنی والدہ کو کھلایا۔ کھانا کھانے سے فارغ ہو کر اسکی والدہ نے اپنے رب کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے اور صدق دل سے یہ دعا کی کہ اے اللہ ! میرے بیٹے کو جنت میں حضرت موسیٰ کا ہم نشین بنا۔ اس بوڑھی عورت کے ان الفاظ کو سن کر آپ کو حقیقت حال کا علم ہوا کہ اس کا بلندو بالا مرتبہ صرف اسکی ماں کی دعاوٴں کا نتیجہ ہے۔ اللہ رب العزت کے نزدیک والدین کی ذات پر خرچ کرنا پسندیدہ اعمال میں سے ہے۔ سورة البقرہ میں ارشادِ ربانی ہوتا ہے۔
ترجمہ ”آپﷺسے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہہ دو جو کچھ بھی اچھے مال سے خرچ کرو پس وہ والدین کے لیے ہے۔
محمد اسحاق جیلانی
Courtesy :
www.ieroworld.net
www.taqwaislamicschool.com
Taqwa Islamic School
Islamic Educational & Research Organization (IERO)