استغفار، استغفار، استغفار
رسول اللہ ﷺ کوخواب میں گناہ گاروں کاعبرت ناک انجام دکھایاگیا
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت نماز کی ادائیگی فرما لیتے تو ہماری طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے آج رات جس نے کوئی خواب دیکھا ہے وہ بیان کرے۔ چنانچہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتو وہ اس کوبیان کرتا۔ پس آپ ﷺ فرماتے “ جواللہ چاہتا ہے۔ ایک دن آپ ﷺ نے پوچھا تم میں سے کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا“ آج رات میں نے خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے ہیں۔ انھوں نے میرے دونوں ہاتھ پکڑلئے اور مجھے بیت المقدس کی طرف لے چلے۔ ان میں سے ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے اور ایک کھڑا ہے۔ اس کے ہاتھ میں لوہے کاآٹکڑا ہے وہ بیٹھے ہوئے آدمی کے گلے میں اس کوڈالتا ہے۔ میں نے عرض کی“ یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ آگے چلو۔ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس آئے جو چت لینا ہواتھا اور ایک پتھرلڑھک جاتا۔ وہا س کولینے جاتا۔ جب واپس آتا تو اس کاسر پہلے کی طرح ہوچکاہوتا۔ وہ دوبارہ اس کی طرف لوٹتا اور اس کو مارتا۔ میں نے کہا“ یہ کیاہے؟ انھوں نے کہا“ آگے چلو۔ ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک گڑھے کے پاس آئے جو تنورکی مانند تھا۔ اس کااوپر کا حصہ تنگ تھا اور نیچے کاحصہ کشادہ اور اسکے نیچے آگ جل رہی تھی۔ اس میں بہت سے مرداور عورتیں ننگی تھیں۔ جب آگ اوپر سے اٹھتی تو وہ اوپر آجاتے یہاں تک کہ قریب ہوتا کہ وہ جہنم سے نکل جائیں گے اور جب آگ کاشعلہ پست ہوتا گرپڑتے۔ میں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ آگے چلو۔ ہم چلے یہاں تک کہ ہم خون کی نہر پر آئے۔ نہرکے درمیان ایک شخص کھڑاتھا اور ایک شخص کنارے پر کھڑا تھا۔ اس کے آگے پتھر رکھے ہوئے تھے۔ وہ شخص جونہر میں تھا جب آگے آتا اور باہرنکلنے کاارادہ کرتاتو اس کے منہ پر پتھرمارتااور وہ اسی جگہ واپس لوٹ جاتا جہاں کھڑاتھا۔ میں نے کہا ” یہ کیاہے؟ انھوں نے کہا“ آگے چلو۔ ہم چلے یہاں تک کہ ہم سرسبزہ شاداب باغ کے پاس پہنچے۔ اس میں ایک بہت بڑا درخت تھا۔ اس کی جڑ میں ایک بہت بوڑھا شخص بیٹھا تھاا ور بہت سے بچے تھے۔ وہاں درخت کے پاس ایک اور شخص تھا۔ اس کے سامنے آگ تھی جس کووہ جلارہا تھا۔ وہ دونوں مجھے لے کے درخت پرچڑھے۔ انھوں نے درخت کے درمیان ایک گھرمیں مجھے داخل کیا۔ اس سے بہتر گھرمیں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔اس میں بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے ان دونوں کوکہا: آج رات تم دونوں نے مجھے بہت پھرایا ہے، مجھے اس کے متعلق بتاؤ جومیں نے دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا: جس آدمی کوآپ ﷺ نے دیکھا ہے کہ اس کاگلہ چیرا جارہاہے وہ کذاب ہے، جھوٹ بولتا ہے، جھوٹی باتیں اس سے نقل کی جاتی ہیں اور دور دارز تک پہنچ جاتی ہیں۔ قیامت تک اس کے ساتھ اسی طرح کیاجاتارہے گا۔جس طرح آپ ﷺ نے دیکھا ہے اور جس کوآپ ﷺ نے دیکھا ہے کہ اس کاسرکچلا جارہاہے۔ وہ آدمی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن سیکھایا ہے۔ وہ رات کوسوتا رہا اور دن میں اس پر عمل نہیں کیا۔ قیامت تک اس کے ساتھ اسی طرح کیا جاتا رہاہے گا جس کونہر میں دیکھا وہ سوخور ہے اور جو بوڑھاادرخت کی جڑ میں دیکھا وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہیں اور جوآگ جلارہاہے وہ دوزخ کاداروغہ ہے۔ پہلا گھر جس میں آپ ﷺ داخل ہوئے وہ ایماندارکاگھر ہے اور یہ شہداء کا گھر ہے۔ میں جبرائیل (علیہ السلام) ہوں اور یہ میکائیل (علیہ السلام ) ہیں۔ اب آپ ﷺ اپنا سراٹھائیں، میں نے اپنا سراٹھایا۔ میرے اوپر کی مانند کوئی چیز تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ آپ ﷺ کاگھر ہے میں نے کہا کہ مجھے چھوڑو کہ میں اس میں داخل ہوں۔ انھوں نے عرض کی کہ ابھی آپﷺ کی عمرباقی ہے جسے آپﷺ نے ابھی پورا نہیں کیا۔ جب آپ ﷺ اس کوپورا کرلیں گے تو اس میں داخل ہوجائیں گے۔
حاسد کے سرسے بچنے کے لئے
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کودعا سکھائی
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ: کیا آپ ﷺ بیمار ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ انھوں نے کہا: اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ ﷺ کودم کرتا ہوں ہرایسی چیز سے جوآپﷺ کوتکلیف دے ہر شخص کی برائی سے یاحسد کرنے والی آنکھ کی برائی سے۔ اللہ کوشفا بخشے۔ اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کودم کرتا ہوں۔
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کی ایک جھلک
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص سے مصافحہ کرتے تو اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ سے نہ کھینچے یہاں تک کہ وہ آدمی خوداپنا ہاتھ کھینچ لیتا اور اپنا چہرہ اس سے نہ پھیرتے جب تک وہ شخص اپنا چہرہ نہ پھیرتا۔ کبھی آپﷺ کونہیں دیکھا گیا کہ آپ ﷺ اپنے ہم نشینوں کے سامنے گھٹنے آگے بڑھاتے ہوں۔
آپ ﷺ نے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکلا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں نقص نہیں نکالا۔ کھانے کی خواہش ہوتی تو کھالیتے اور اگرنا پسند ہوتاتو چھوڑدیتے۔
رسول اللہ ﷺ کانبوت کے لئے انتخاب
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولﷺ کوفرماتے سنا اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل سے کنانہ کوچن لیا۔ کنانہ سے قریش کوچن لیا اور قریش سے بنوہاشم کوچن لیا اور بنوہاشم سے مجھ کوچن لیا۔
ہجرت کے وقت غارثو میں آپ ﷺ کاپڑاؤ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قریش نے ایک رات مشورہ کیا۔ بعض نے کہا کہ (نعوذباللہ) جب صبح ہوتو رسول اللہ ﷺ کوخوب اچھی طرح باندھا۔ بعض نے کہا کہ انھیں مارڈالو اور بعض نے کہا کہ انھیں قتل کر ڈالو(نعوذباللہ) اور بعض نے کہا کہ انھیں نکال دو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کواس سے آگاہ کردیا پس سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس رات رسول اللہ ﷺ کے بستر پر رات گزاری اور رسول اللہ ﷺ گھر سے نکل گئے یہاں تک کہ غار میں جاپہنچے اور مشرکوں نے ساری رات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہرہ داری کی اور قریش سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کورسول ﷺ سمجھتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو انھوں نے آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا۔ پس جب انھوں نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودیکھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کوان چال چلنے سے روک دیا۔ پس انھوں نے سیدنا علی المرتضیض رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کایہ ساتھی کدھرہے؟ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نہیں جانتا۔ قریش آپ ﷺ کی کھوج میں نکلے ۔ مشرک جب جبل ثور کے پاس پہنچے تو انھیں شک پڑا اور وہ پہاڑ پر چڑھ گئے۔ جب غار کے پاس سے گزرے توا نھوں نے مکڑی کا جالا دیکھا جو غار کے دروازے پر بناہوا تھا۔ پس انھوں نے کہا کہ اگر آپ ﷺ اس میں داخل ہوئے ہوتے تو اس کے دروازے پر مکڑی کاجالانہ ہوتا جبکہ آپ ﷺ اس غار مین تین دن رہے۔ ۔
رسول ﷺ نے کھانے میں برکت کی دعا فرمائی
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے کہا‘ میں نے اس اللہ ﷺ کی آواز کوپست سنا جوبھوک پردلالت کرتی ہے۔ کیاتمھارے پاس کھانے کی کوئی چیزہے؟ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے کہا” ہاں ۔ پس وہ جوکی روٹیاں لائی پھران کوکپڑے کے کونے میں لپیٹا پھر اس کومیرے ہاتھ نیچے دبادیااور اس پر کپڑا لپیٹ کرمجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گیا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کومسجد میں پایا۔ آپﷺ نے فرمایا” کیاتمہیں ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟” میں نے کہا “ ہاں ۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا: کھانے کے ساتھ بھیجا ہے؟ میں نے کہا” ہاں“ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کوفرمایا: اٹھو۔ آپ ﷺ اٹھے۔ میں بھی آپﷺ کے ساتھ اٹھ اورآپ ﷺ کے آگے چلا۔ میں نے ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو( آپ ﷺ کے آنے کی) خبردی۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے ام سلیم ،رسول اللہﷺ تشریف لے آئے ہیں اور ہمارے پاس اتنا راشن نہیں کہ سب کوکھلائیں۔ ام سلیم نے کہا: اللہ اور اس کارسولﷺ سے ملے۔ آپﷺ متوجہ ہوئے۔ آپﷺ نے فرمایا: جوکھاناتمھارے پاس ہے وہ میرے پاس لاؤ۔ وہ کھانا آپ ﷺ کے پاس لایاگیا۔ آپ ﷺ نے روٹیوں کو توڑنے کاحکم دیاحتیٰ کہ وہ ریزہ ریزہ کی گئیں۔ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے اس پر گھی کی ” کپی“ نچوڑی۔ اس گھی نے جواس” کپی“ میں تھا سالن کاکام کیا۔ آپﷺ نے اس کھانے میں برکت کے لیے دعافرمائی پھر دس دس آدمیوں کوکھانے کے لیے بلایا۔ تمام لوگوں نے خوب پیٹ بھر کرکھانا کھایا۔پھر آپﷺ نکلے پھر دس لوگوں کوکھانا کھانے کی اجازت دی۔ تمام لوگوں نے خوب پیٹ بھر کرکھانا کھایا۔(کل لوگ ستریااسی کے قریب تھے)۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے دس کواجازت دی۔وہ داخل ہوئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کھاؤاور اللہ کانام لو۔ انھوں نے کھایا اور پھر بھی باقی بچ گیا۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے پاس دس کوبھیجو۔ یہاں تک کہ آپﷺ نے چالیس لوگوں کوگنا پھر آپ ﷺنے کھایا۔ میں نے دیکھنا شروع کیاکہ اس کھانے میں سے کچھ کم ہوا یانہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ پھر آپ ﷺ نے باقی لوگوں کوجمع کیااور کھانے میں برکت کی دعا فرمائی تو کھانا اس طرح ہوگیاجیسا کہ پہلے تھااور فرمایا: لواور کھاؤ اس کو۔
حضرت ابوہرہ ضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب غزوہ تہوک کادن تھا تواس دن لوگوں کوبہت بھوک لگی ہوئی تھی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا” اے اللہ کے رسول ﷺ لوگوں سے بچا ہواکھانا منگوائیے اور اس میں برکت کی دعافرمائیے۔ آپﷺ نے چمڑے کادسترخوان منگوا کر اسے بچھایا پھر لوگوں سے باقی ماندہ کھانا منگوایا۔ ایک آدمی چینی کی مٹھی دوسرا کھجور کی مٹھی اور ایک شخص کھجور کاٹکڑا لایا یہاں تک کہ دسترخوان پر تھوڑی سی چیزیں جمع ہوگئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس میں برکت کی دعا کی پھر فرمایا: اسے اپنے برتنوں میں ڈالو۔ سب لوگوں نے اپنے برتن بھرلیے۔ لوگوں میں سے کوئی باقی نہ رہا جس نے اپنا برتن نہ بھراہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سب لوگوں نے خوب سیرہوکرکھایا اور بہت ساکھانا بچ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبودنہیں اور میں اللہ کارسول ہوں۔یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی بندہ دونوں گواہیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملے اور وہ شک کرنے والا بھی نہ ہوتو پھر وہ جنت میں داخل ہونے سے روکا جائے۔
آپ ﷺ مجسم رحمت وشفقت
حضرت یعلی بن مرّہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اس دوران جب ہم آپ ﷺ کے ساتھ گئے، میں نے آپ ﷺ میں تین چیزں دیکھیں۔ ایک اونٹ پر ہماراگزرہوا جس سے پانی کھینچا جاتاتھا۔جب اونٹ نے آپﷺ کودیکھا تو آواز نکالی اور گردن رکھ دی۔آپ ﷺ اس اونٹ کے پاس ٹھہر گئے ۔ٓپ ﷺ نے فرمایا: اس اونٹ کامالک کہاں ہے؟ اس کامالک رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپﷺ نے فرمایا: اس اونٹ کومیرے پاس بیچ دو۔اس نے کہا: اس اونٹ کومیں نے آپ ﷺ کوبخش دیاجبکہ یہ اونٹ ایسے گھر والوں کاتھا جن کے پاس اس کے سواکوئی ذریعہ معاش نہ تھا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ادھر یہ حال بیان کرتا ہے مگر اونٹ نے یہ گلہ کیاہے کہ کام زیادہ لیتے ہیں اور خوراک کم دیتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا: اس سے بھلائی کر۔پھر ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک منزل پر اترے۔آپ ﷺ نے آرام فرمایا۔درخت زمین کوپھاڑتا ہوا آیایہاں تک کہ اس درخت نے آپ ﷺ کو ڈھانپ لیاپھر اپنی جگہ پر واپس چلاگیا۔ب آپ ﷺ بیدار ہوئے تو میں نے اس چیز کاذکر کیا۔آپ ﷺ نے فرمایا: اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کوسلام کرے تو اللہ تعالیٰ نے اسے اجازت دے دی۔ہم پھر چلے اور پانی کے پاس سے گزرے۔ک عورت اپنے بیٹے کوآپﷺ کے پاس لائی جسے جنون تھا۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی ناک پکڑی اور فرمایا: باہر نکل۔ بے شک میں محمد (ﷺ) ہوں اللہ کارسول (ﷺ)۔پھر ہم چلے اور پھر واپس اسی پانی پر آئے۔آپ ﷺ نے اس عورت سے اس کے بیٹے کاحال دریافت کیا۔ عورت نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے، ہم نے اس کے بعد کوئی تکلیف نہیں دیکھی۔(اسے بغوی نے شرح السنہ میں روایت کیاہے)۔
محمد بن عبداللہ(ﷺ کابے مثال عہد
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے دن مشرکوں کے ساتھ تین شرطوں پر صلح کی۔ک یہ کہ مشرکوں میں سے جو شخص آپ ﷺ کے پاس آئے گا، آپﷺ اس کوواپس لوٹادیں گے اور مسلمانوں میں سے جوشخص ان کے پاس آئے گا وہ اس کونہیں لوٹائیں گے۔دوسری شرط یہ تھی کہ آئندہ سال آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوں گے اور تین دن تک مکہ میں ٹھہریں گے۔ انھوں نے صلح نامہ لکھا تویہ الفاظ لکھے کہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمدﷺ نے صلح کی ہے مشرکوں نے کہا: ہم اس بات کااقرار نہیں کرتے۔گر ہم یہ جان لیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ ﷺ کومنع نہ کریں لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہوں ۔پھر آپ ﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: رسول اللہ کالفظ مٹادو۔رسول اللہ ﷺ نے صلح نامہ پکڑا۔آپ ﷺ نے لکھا یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ، مکہ میں ہتھیارلے کر داخل نہیں ہوں گے سوائے اس کے کہ ان کی تلواریں میان میں ہوں گی اور یہاں رہنے والوں میں سے جو ساتھ جان چاہیں گے ان میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے کرنہیں جائیں گے اور جوکوئی ٹھہرنا چاہے گا اسے آپ ﷺ ساتھ نہیں لے جائیں گے۔جب آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور مقررہ مدت گزرگئی ۔کافر سیدناعلی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اپنے صاحب سے کہہ دو کہ ہمارے شہر سے نکل جائیں کیونکہ مدت گزرگئی ہے۔تو رسول اللہ ﷺ مکہ واپس تشریف لے گئے۔
امّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے دو کاموں میں سے ایک کاانتخاب کبھی نہیں کیاگیا تھا مگر آپ ﷺ آسان کام کوپسند کرتے تھے جب تک کہ وہ گناہ نہ ہوتا، اگر گناا ہوتاتو(اس کام) سے دورہوجاتے ۔آپ ﷺ نے کبھی کسی سے کسی معاملے میں اپنے لئے انتظام نہیں لیا اور اگرکوئی اللہ کی حرام کردہ چیز کامرتکب ہوتاتواس سے اللہ تعالیٰ کے لئے انتظام لیتے۔
سیدہ فاطمة الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنھا مومن عورتوں کی سردار ہوں گی ․․․ (حدیث نبویﷺ
امّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی ازواج آپ ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ سیدہ فاطمة الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنھا تشریف لائیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے نہیں چھپتی تھی جب رسول اللہ ﷺ نے انھیں دیکھا تو فرمایا: میری بیٹی کے لیے کشادگی ہو۔پھران کوبٹھایا اور ان کے کان میں چپکے سے کوئی بات کہی۔سیدہ فاطمة الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنھا بہت روئیں۔جب آپ ﷺ نے انھیں غم میں مبتلا دیکھا تو دوبارہ ان کے کان میں ایک بات کہی تووہ مسکرانے لگیں۔جب رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے تو میں نے سیدہ فاطمة الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ نے آپ کے کان میں کیاکہاہے؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کے بھیدکوظاہر نہیں کروں گی۔جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو میں نے کہا ” میں تجھے اس حق کاواسطہ دیتی ہوں جوتجھ پر میرا ہے۔مجھے ضرور بتاؤ کہ وہ کیابات تھی؟ سیدہ فاطمة الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنھا کہنے لگیں کہ اب جب کہ آپ ﷺ وصال فرماگئے ہیں تومجھے وہ بات بتانے میں کوئی حرج نہیں ۔پہلی مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا: حضرت جبرائیل علیہ السام ہر سال قرآن مجید کادورہ کرتے تھے۔اس مرتبہ انھوں نے دومرتبہ دورہ کیا۔ میراخیال ہے کہ میراوقت وصال قریب آگیا ہے تواللہ تعالیٰ سے ڈر اور صبرکر۔میں تمھارے لیے اچھا پیش روہوں۔میں روپڑی۔ جب آپ ﷺ نے میری بے صبری دیکھی تو دوسری مرتبہ میرے ساتھ سرگوشی فرمائی اور آپ ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنھا) کیاتو اس بات سے راضی نہیں کہ توجنتی عورتوں کی سردار ہوگی؟ ایک روایت میں ہے کہ فرمایا: مومن عورتوں کی سردار ہوگی۔ک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ ﷺ اس بیماری میں و صال پاجائیں گے۔میں روپڑی پھر میرے کان میں چپکے سے فرمایا: تومیرے گھروالوں میں سب سے پہلے مجھے ملے گی۔“ تومیں ہنس پڑی۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا: فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنھا) میرے گوشت کاٹکڑا ہے جسن نے اس کاناراض کیا اس نے مجھ کو ناراخ کیا۔ ایک اور روایت میں ہے “ جو چیز اس کوقلق میں ڈالتی ہے وہ مجھے قلق میں ڈالتی ہے۔
اولاد اللہ تعالیٰ کی خوشبومیں سے ہے ․․․ (حدیث نبویﷺ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کودیکھا جب ان کے پاس کوئی نیا پھل لایاجاتا تواس کواپنی آنکھوں اور ہونٹوں پر رکھتے اور فرماتے: اے اللہ جس طرح اس کااول تونے ہمیں دکھایا اس طرح اس کاآخر بھی ہمیں دیکھا۔پھر آپ ﷺ وہ پھل ان بچوں کودیتے جوآپ ﷺ کے قریب موجود ہوتے۔
امّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بچے کولایا گیا۔آپ ﷺ نے اس کو چوماپس فرمایا: یاتو یہ (اولاد) بخل اور نامرادی کاباعث بنتی ہے یا اللہ تعالیٰ کی خوشبو میں سے ہے۔(اسے انھوں نے شر ح السنہ میں روایت کیاہے
ثرید رسول اللہ ﷺ کاپسندیدہ کھانا
سیدہ ناابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کھانے میں سب سے زیادہ پسند روٹی کی ثریداور جیس کی ثرید ہے۔
ازواج مطہرات سے محبت
امّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بے شک میں جانتاہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہواور اس وقت کوبھی جب تم مجھ سے خفاہوتی ہو۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ یہ آپ کیسے جان لیتے ہیں۔؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس وقت تم مجھ سے خوش ہوتی ہو توکہتی ہو” اس طرح نہیں ہے، قسم ہے محمد ﷺ کے رب کی اور جب مجھ سے ناراض ہوتی ہوتو کہتی ہو کہ نہیں ہے اس طرح قسم ہے ابراہیم (علیہ السلام) کے رب کی۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا: ہاں اللہ کی قسم ، اے اللہ کے رسول ﷺ میں نہیں چھوڑتی مگر آپ کانام ۔
امّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ وہ سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھیں۔میں نے دوڑنے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مقابلہ کیاتو میں مقابلے میں آپ ﷺ سے آگے نکل گئی۔ جب تھوڑی موٹی(فربہ) ہوگئی توپھر میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دوڑ لگائی تو آپ ﷺ مجھ سے آگے نکل گئے۔آپ ﷺ نے فرمایا: یہ آگے نکل جانا اس آگے نکل جانے کا بدلہ ہے۔
امّ المومنی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول ﷺ سے آنے کی اجازت طلب کی۔آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اجازت دے دو، اپنء قوم کابراآدمی ہے۔ب وہ آکر بیٹھا تو آپ ﷺ نہایت خندہ پیشانی سے پیش آئے اور اس کے لیے مسکرائے ۔ وہ آدمی چلاگیا توسیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے عرض کی۔اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے اس شخص کے بارے میں ایسا کہاتھا پھر آپ ﷺ اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئے اور اس کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے مجھے کب فحش گوپایا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بدترین شخص وہ ہوگا جس کو لوگ اس کے شرکی وجہ سے چھوڑ دیں۔(ایک روایت میں ہے کہ اس کی فحش گوئی کی وجہ سے چھوڑدیں) بے شک میرے رب کریم نے سچ فرمایا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ حسنہ اور سیرت طبیہ ﷺ پر عمل پیراہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
Courtesy:
www.ieroworld.net
Taqwa Islamic School
Islamic Educational & Research Organization (IERO)